لاہور قونصلیٹ میں پبلک آفیئرز منسٹر مائیکل گیونان‘ کمیونٹی کالج کے پرنسپل آفیسرڈاکٹر حق نواز بھٹی اور یونیورسٹی لائبریرین عمر فاروق کے ہمراہ میٹنگ روم میں ہونیوالی ملاقات کے دوران یونیورسٹی میں جاری انگلش ایکسیس مائیکروسکالرشپ پروگرام کی سرگرمیوں اور مستقبل کے لائحہ عمل پر ہونے والی میٹنگ میں آئندہ تعلیمی سیشن کے دوران پارس کیمپس میں 100اور مرکزی کیمپس میں 50طلبہ کو انگلش لینگوئج پروگرام کا حصہ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف نے امریکی قونصل جنرل کو بتایا کہ وہ مائیکروایکسیس پروگرام کی جاری سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ ہیں اور اس میں اب تک ہونیوالی پیش رفت سے بھی مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے دنیا کے 80ممالک میں جاری انگلش ایکسیس مائیکروسکالرشپ پروگرام میں 13سے 20سال عمر کے نوجوانوں کی شمولیت اس حوالے سے اہم ہے کہ وہ دنیا بھر میں بولی اور سمجھی جانیوالی زبان سے جانکاری اپنے ابتدائی سالوں میں ہی مکمل کر لیں گے جس سے انہیں پیشہ وارانہ اُمور میں کامیابیوں کیلئے غیرضروری محنت کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ نئے تعلیمی سیشن کیلئے ڈیڑھ سو طلبہ کو پڑھانے کیلئے باصلاحیت اساتذہ کی تعیناتی کیلئے اشتہار جلد شائع کیا جائے گا اور اہل اساتذہ کی میرٹ اور شفاف انداز میں تعیناتی عمل میں لائی جائیگی۔
زرعی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے نئی قانون سازی کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود قوانین پر عملدداری یقینی بنائی جائے تو زراعت کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ ووکیشنل و ٹیکنیکل ٹریننگ کے اداروں میں دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ زرعی ترقی اور کسان کی خوشحالی کیلئے کورسز شامل کئے جائیں تو مستقبل میں ہمیں باصلاحیت کسان اور اچھے سروس پروائیڈرز دستیاب ہونگے۔ یہ باتیں صوبائی وزیر مینجمنٹ و پروفیشنل ڈویلپمنٹ سید حسین جہانیاں گردیزی نے یونیورسٹی کے نیو سینٹ ہال میں شعبہ دیہی عمرانیات اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ سائنسز کے اشتراک سے انٹرنیشنل سینٹر فار ڈویلپمنٹ و ڈیسنٹ ورک کے پلیٹ فارم سے منعقدہ ایک روزہ سمپوزیم کے افتتاحی سیشن سے مہمان خصوصی کے طورپر خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ سید حسین جہانیاں گردیزی نے کہا کہ ملک کی 60فیصد آبادی 35سال سے کم عمرنوجوانوں پر مشتمل ہے اور موجودہ حکومت نوجوانوں کو ہنریافتہ بناکر نہ صرف خودروزگار کے قابل بنا رہی ہے بلکہ ان کی عملی شمولیت اور تعمیری کردار سے بین الاقوامی سطح پر قومی انڈسٹری کو بھی مسابقتی بنیادوں کھڑاکرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند سکل ڈویلپمنٹ سے وابستہ سرکاری ادارے خود روزگار اور صنعتی ضروریات کے لئے تو افرادی قوت تیار کرتے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ زرعی شعبہ میں متناسب زراعت کو فروغ دینے کیلئے نوجوانو ں کی اس سمت میں تربیت کی جائے کہ وہ زرعی شعبے میں اچھے سروس پروئیڈرز بن اور کاشتکار بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہرچندماضی میں ٹیکنیکل و ووکیشنل ٹریننگ سے وابستہ ادارے سکول سطح سے آگے آنیوالے ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کو متاثر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تاہم وہ چاہیں گے کہ ان اداروں میں سکل ڈویلپمنٹ کا معیار اس سطح پر لایا جائے کہ سکول میں زیرتعلیم ذہین بچے ان کی سرگرمیوں کا حصہ بن سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مذہب شائستگی پر زور دیتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خاندان اور دیہی سطح پر خواتین کے تعمیری کردار کو سراہا جانا چاہئے تاکہ شائستگی کی پیکر خواتین کی مثالی خدمات کی خاندان اور معاشرتی سطح پر ستائش کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1990ء کی دہائی میں سکل ڈویلپمنٹ اور نوجوانوں کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کے حوالے سے پاکستان چین اور بھارت سے آگے تھاتاہم آج بدقسمتی سے ہم وہ مقام برقرار نہیں رکھ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں سیڈ کارپوریشن اور دوسرے سرکاری ادارے کسانوں کو بہترین معیار کا بیج فراہم کرتے تھے تاہم بعد میں آنیوالی پرائیویٹ کمپنیوں نے ناقص و غیرمعیاری بیجوں کے ذریعے کسان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور آج ملک میں معیاری بیج نہ ہونے سے کسان کا سرمایہ اور وقت دونوں ضائع ہورہے ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف نے کہا کہ پاکستان میں ڈیسنٹ ورک کو فروغ دینے اور غربت کے خاتمے کیلئے زراعت سے بہتر کوئی شعبہ نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسان کو سرٹیفائیڈ بیج کے ساتھ ساتھ اس کیلئے چھوٹے اور سستے زرعی آلات کی فراہمی یقینی بنا دی جائے تو ملک کی مجموعی شرح نمو میں زراعت کا حصہ پھر بڑھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہرچند پاکستان میں زرعی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانون تو موجود ہیں تاہم ان پر عملداری میں موجود خامیوں کی وجہ سے مارکیٹ میں کسان کا استحصال کرنیوالی قوتیں ہمیشہ غالب رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ قومی سطح پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی اور سید فخر امام کی زیرنگرانی قائم کمیٹی میں اس امر پر اتفاق ہے کہ جب تک ملک میں کسان کا استحصال کرنیوالی قوتوں کا ہاتھ قانون پر عمل عملداری کے ذریعے نہ روکا گیاتب تک زرعی ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر جرمنی کے ڈاڈ اور ایکسل پروگرام کے تحت کی گئی نیٹ ورکنگ میں ڈیسنٹ ورک اسی صورت میں فروغ پائے گا جب اس میں شامل ماہرین عمرانیات پوری تندہی سے اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ چند دو برسوں کے دوران زرعی یونیورسٹی کو دنیا کی 500بہترین جامعات کی فہرست کا حصہ بنانے کے آرزومند ہیں جس کیلئے حکمت عملی مرتب کر لی گئی ہے۔ جرمن سائنس دان ڈاکٹر کرسٹوف سچرڈ نے بتایاکہ بین الاقوامی سطح پر گلوبل لیبریونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کیلئے آواز اٹھانی والی تواناآوازیں سامنے لائی جا سکیں۔ نیشنل ووکیشنل و ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ناصر خان نے کہا کہ بیرون ممالک محنت مزدوری کرنے والے پاکستانیو ں کو اگر بین الاقوامی لیبر مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ہنریافتہ بنادیا جائے تو پاکستان میں ترسیلات زر کو آسانی سے دوگنا کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر ٹریننگ سے وابستہ ادارے نوجوانوں کو ہنر تک ضرورسیکھا رہے ہے تاہم اگر انہیں اس سطح پر تیار کیا جائے کہ ان کی شمولیت سے قومی انڈسٹری دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہترنتائج کی حامل ہوتبھی وہ سمجھیں گے کہ ان اداروں سے بین الاقوامی جاب مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق افرادی قوت تیار کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 12کروڑ نوجوان 35سال سے کم عمرمیں ہیں لہٰذا اگر انہیں ووکیشنل و ٹیکنیکل ٹریننگ کا حصہ بنایا جائے تو پاکستان کو چند برسوں میں ہی اوپر اٹھایا جا سکتا ہے۔سمپوزیم سے ڈاکٹر سائرہ اختر‘ ڈاکٹر عبدالغفور‘ ڈاکٹر مبشر مہدی‘ ڈاکٹر خالد مشتاق نے بھی خطاب کیا۔