زرعی یونیورسٹی کے کیس آڈیٹوریم میں موسمیاتی تبدیلیوں جیسی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے حکمت عملی اور غذائی رجحانات پر منعقدہ ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے کہا کہ پانی‘ توانائی‘ خوراک‘ حیاتیاتی تنوع اور موسمیاتی تبدیلیاں ہر بین الاقوامی فورم کا مرکزی ایجنڈا ہوتے ہیں اور پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہر سال نئے حالات کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ اس کی کوالٹی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چین کے صحرائی علاقوں میں مکئی کاشت کی جاتی ہے جہاں سالانہ برشیں ہمارے پوٹھارریجن سے کئی گنا کم ہوتی ہے لہٰذا ہمیں بھی اپنے بارانی علاقوں میں گندم کی کاشت کیلئے چینی تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں موجود قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے سے دوسرے شعبوں کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے کیونکہ ناقص و غیرمعیاری بیج اور زرعی ادویات سے ہر سال کسان کی جیب سے اربوں روپے ملاوٹ مافیا ہتھیا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اپنے پوٹھاری علاقوں میں فارم کی سطح پر چھوٹے جوہڑ بناکر پانی ذخیرہ کرنے کی ایسی حکمت عملی متعارف کروانا ہوگی جس میں پلاسٹک کے ذریعے پانی زمین میں جذب ہونے کے عمل کو روکا جا سکے تاکہ اسے خشک موسموں میں استعمال میں لاکر زرعی ترقی کویقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے سائنس دانوں پر زور دیا کہ مربوط کاوشوں کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ایسی ورائٹیاں متعارف کروائی جائیں جو سخت موسموں میں بھی پیداواری عمل جاری رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ سابق سینیٹر نثار میمن نے کہا کہ ان کا ادارہ پانی‘ توانائی اور خوراک کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کیلئے ہر شہر میں مشاورتی سیشن منعقد کرے گا تاکہ ہر سطح پر پانی اور توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کی جا سکے۔انہوں نے کہاکہ کرہ ارض پر پانی‘ توانائی اور خوراک کے بغیر پائیدار زندگی ناممکن ہے لہٰذا ان تمام وسائل کے ہوشمندانہ استعمال کا شعوراجاگر کرنے کیلئے سکول سلیبس میں یہ باتیں ڈالی جانی چاہئیں۔
یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ریاض حسین قریشی نے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ پانی زرعی شعبے میں ضائع ہوتا ہے کیونکہ نہروں سے کھیت تک پہنچنے کے دوران 65فیصد سے زائد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراپ زوننگ میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ پانی کی تقسیم اور فراہمی کے حوالے سے صوبوں کے مابین اعتماد سازی کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک پانی کی کوئی قیمت مقرر نہیں کی جائیگی اس کا ضیائع روکنے کیلئے ہدف کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پانی کی بچت پر مبنی آبپاشی ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ نئی نسل میں بھی پانی کی بچت کا شعور اجاگرکرنے کیلئے سکول سطح پر کاوشیں بروئے کار لانا ہونگی۔ انہوں نے نیشنل واٹر کونسل میں انجینئرزکی زیادہ تعداد اور کسی بھی زرعی ماہر کی غیرموجودگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اس میں زرعی سائنس دان کی شمولیت پر زور دیا۔ فوکل پرسن کیس یو اے ایف ڈاکٹر اشفاق احمد چٹھہ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تناظر میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور گرم ہوائیں مختلف چیلنجز کا باعث بن رہی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے بلکہ پیداواری معیار بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ صدی کے آغاز میں ہم تین درجن سے زائد زرعی اجناس کاشت کرتے تھے تاہم اب ان کی تعداد تین تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جس کی بڑی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیاں اور تبدیل ہوتے ہوئے غذائی رجحانات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امسال اپریل میں ہونیوالی غیرمتوقع بارشوں کے نتیجہ میں گندم کی فصل پکنے میں تاخیرہوئی جس کی وجہ سے اس کی کوالٹی بری طرح متاثر ہونے سے ہدف سے زیادہ رقبے پر اس کی کاشت کے باوجود پیداواری ہدف مشکل سے پورا ہوسکا۔ ڈاکٹر علی توقیر نے کہا کہ چاول کی کاشت اور برآمد کی صورت میں ہم مہنگے پانی سے چاول پیدا کرکے اس کی سستی برآمد کے مرتکب ہورہے ہیں لہٰذا پانی کی کمی کے شکار ملک میں یہ سلسلہ کسی طور پر سودمند نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ورائٹیوں کے ساتھ ساتھ سخت موسمی حالات میں بھی پیداواری عمل جاری رکھنے والی ورائٹیوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر سمیرا صمد نے کہا کہ ہرچند امسال اپریل‘مئی اور جون میں ہونیوالی غیرمتوقع بارشوں سے موسم خوشگوار ہوگیا تاہم پھلوں اور زرعی اجناس پکنے میں تاخیر سے پیداوار میں کمی کے ساتھ ساتھ اس کی کوالٹی بھی متاثرہوئی۔ڈائیلاگ سے ڈاکٹر مسعود صادق بٹ‘ ڈاکٹر نزہت ہما‘ ڈاکٹر فرح ریاض‘ ڈاکٹر فہد رسول اور مس رکزہ جاوید نے بھی خطاب کیا۔