اور اس خطرناک بوٹی کی وجہ سے ایک سال کے دوران 1.4کھرب ڈالر نقصان یا عالمی جی ڈی پی کو 5فیصد کمی کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنیوالے مہینوں میں بھارت سے مکئی کو نقصان پہنچانے والی سنڈی (فا) پاکستانی فصل پر حملہ آور ہوسکتی ہے جس سے مکئی کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے جس کے بروقت ازالے کیلئے فوری حکمت عملی مرتب کی جانی چاہئے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آبادکے انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن و رورل ڈویلپمنٹ اور کیبی کے اشتراک سے منعقدہ آگاہی سیمینار کے مہمان خصوصی کے طو رپر یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے کہا کہ ایگرانومی‘ انٹومالوجی اور پلانٹ پتھالوجی کے ماہرین کو درپیش مسائل کی روشنی میں گاجر بوٹی پر تحقیق کیلئے مربوط حکمت عملی کے ذریعے فنڈنگ ایجنسیوں میں منظم تحقیقی پراجیکٹ جمع کروانے چاہئیں تاکہ آئندہ چند برسوں کے دوران اسکے موثر تدارک کی حکمت عملی سامنے لائی جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ تین دہائیاں قبل ملک میں شیشم ڈائی بیک بیماری سامنے آئی لیکن اس کی وجوہات اور موثر علاج سامنے نہ آنے کی وجہ سے آج یہ مسئلہ ترشاوہ پھلوں‘ امرود‘ شہتوت کے بعد آم کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے لہٰذا اس کے تدارک کیلئے بھی منظم تحقیق کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر اشرف نے کہا کہ وہ ملک میں سستی اور چھوٹی زرعی مشینری کے فروغ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرکے درآمدی زرعی مشینری کی ریورس انجینئرنگ کے ذریعے مقامی تیاری کیلئے کوشاں ہیں تاکہ کسان کی پیداواری لاگت میں کمی کے ساتھ ساتھ پیداوار اور اس کے منافع میں اضافہ کی راہ ہموار کر سکیں۔ کیبی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرحمن نے اپنے ادارے کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ 1957ء سے پاکستان میں پلانٹ پروٹیکشن کے مختلف پروگرامز پر مقامی اداروں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے بعد پاکستان میں بھی اس نقصان دہ جڑی بوٹی کے موثر تدارک کیلئے بائیو کنٹرول ایجنٹ کو ریلیز کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اس کے پتوں کواپنی خوراک کا حصہ بناکر اس کی آبادی کو کم عرصہ میں کنٹرول کر سکے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے حوالے سے سوسائٹی کی سطح پر شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حیاتیاتی‘ کورنٹائن اور کلچرل کنٹرول کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ برسوں میں اسلام آباد اور نواحی علاقوں کے رہنے والوں کو گاجر بوٹی سے پولن الرجی‘ سانس کی بیماریاں‘ آنکھوں کی جلن‘ دمہ‘ کھانسی اور خارش جیسے مسائل کا سامناہے لہٰذا ہمیں ہر سطح پر اس کے بارے شعور اجاگر کرنا ہوگا تاکہ جہاں کہیں بھی یہ مشکوک پودا نظر آئے اسے فوری طو رپر جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہئے۔ پروگرام کے فوکل پرسن ڈاکٹر اعجاز اشرف نے بتایا کہ انہوں نے گزشتہ 25دنوں میں گاجر بوٹی کے موثر انسداد کیلئے آگاہی کے سلسلہ میں وہ 23سے زائد پروگرام کر چکے ہیں جن میں ہزاروں لوگوں کو گاجر بوٹی کے نقصانات سے آگا ہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حیاتیاتی کنٹرول کے بارے میں مفید معلومات سکول و کالج کے طلباء و طالبات‘ اساتذہ اور دیہات سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات تک پہنچائی گئی ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی اس گاجر بوٹی کے تدارک کیلئے اگر کمیونٹی کی سطح پر مربوط کاوشیں بروئے کار نہ لائی گئیں تو انسانوں اور جانوروں کی صحت کو نئے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے حکیم شوگر کے مریضوں کو بغیرعلم اور لیبارٹری تجزیئے گاجر بوٹی سے بنی ادویات اندھا دھند استعمال کروائے جا رہے ہیں لہٰذا ایسے حکیموں سے محتاط رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاجر بوٹی (پارتھینیم) دنیا بھر کی ٹاپ 10خطرناک جڑی بوٹیوں میں شمار ہوتی ہے جو آسٹریلیا‘ امریکہ‘ افریقہ کے بعد اب برصغیر کو بھی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے لہٰذا اس کے موثر تدارک کیلئے ابھی سے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ بہت سے کاشتکار لاعلمی میں کھیت میں روٹا ویٹر کے استعمال سے اس کے پودوں اور بیج کو زمین میں دفن کر رہے ہیں جس کی وجہ سے کھیت میں فصل کے پودوں کی تعداد اور پیداوار نئے مسائل کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گاجر بوٹی جانوروں کیلئے زہریلے اثرات رکھتی ہے کیونکہ اس میں پائے جانیوالے زہریلے مادے جانوروں کے منہ پر الرجی اور بھوک کو کم کردیتے ہیں جس سے جانوروں کے دودھ اور گوشت کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے۔ سیمینار سے ڈاکٹر خالد محمود چوہدری‘ ڈاکٹر بابر شہباز‘ڈاکٹر عمیر‘ ڈاکٹر عائشہ ریاض اور ڈاکٹر نعیمہ نواز نے بھی خطاب کیا۔