کہ وہ پھولوں کے گلدستے اور بکٹس میں گاجر بوٹی کا استعمال ترک کر دیں تاکہ اس کے استعمال سے انسانی اور حیوانی زندگی پر پڑنے والے مضر اثرات کو کم کیا جا سکے۔ گاجر بوٹی کے حوالے سے انسٹی ٹیوٹ آف ہوم سائنسز میں انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ایکسٹینشن و رورل ڈویلپمنٹ و کیبی کے اشتراک سے منعقدہ آگاہی سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر سٹی محترمہ زوہا شاکر نے کہا کہ بدقسمتی سے پھول بیچنے والوں کی اکثریت گاجر بوٹی کے مضراثرا ت سے ناواقف ہے لہٰذا ان کی کوشش ہوگی کہ پہلے مرحلے میں ان کا سروے مکمل کرکے اس کاروبار سے منسلک افراد کیلئے آگاہی پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ خود کو اس کے استعمال سے دور رکھ سکیں۔ پروگرام کے فوکل پرسن ڈاکٹر اعجاز اشرف نے بتایا کہ گاجر بوٹی کی جڑ سے پھول اور پتوں تک تمام حصے انسانی و حیوانی صحت کیلئے نقصان دہ ہیں
لہٰذا وہ سمجھتے ہیں لٹریچر سے ناواقف حکیموں کی طرف سے اس کا شوگر و دوسری بیماریوں کیلئے اندھا دھند استعمال انسانی صحت کو نئے چیلنجز سے دوچار کر سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ تین دہائیاں قبل غیرملک سے آئی یہ گاجر بوٹی تیزی سے وسیع رقبے کو اپنے زیراثرلے رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے فوری سدباب کیلئے کمیونٹی کی سطح پر مربوط کاوشیں بروئے کار لائی جائیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حالیہ برسوں میں الرجی‘ خارش اور چنبل جیسی بیماریوں میں اضافہ کی بڑی وجہ بھی گاجر بوٹی ہے لہٰذا اس کا ہرسطح پر تدارک انتہائی ضروری ہے۔انسٹی ٹیوٹ آف ہوم سائنسز کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ ریاض نے کہا کہ حالیہ برسوں کے دوران پھول بیچنے والی فلاور سپاٹس پر اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے اس استعمال کو روکنے کیلئے یونیورسٹی کی مدد کرے۔ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن محترمہ بلقیس ریحانہ نے کہا کہ شعبہ تعلیم میں گاجر بوٹی کے حوالے سے آگاہی مہم پوری شدت کے ساتھ شروع کر دی گئی ہے اور وہ توقع رکھتی ہیں کہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ ڈاکٹر نعیمہ نواز نے کہا کہ ان کی ٹیم پورے ملک میں شہری اور دیہی سطح پر لوگوں کو گاجر بوٹی کے مضر ا ثرات کے حوالے سے آگاہ کر رہی ہے تاکہ اس کے موثر تدارک کیلئے رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے۔ سیمینار سے عدیلہ منظور نے بھی خطاب کیا۔