کہ اس نئی فلاسفی کے ذریعے ایک طرف زرعی آبپاشی کیلئے پانی کی خاطر خواہ بچت ممکن ہوگی تو دوسری جانب فرٹیلائزراور پیسٹی سائیڈزپر اُٹھنے والے اربوں روپے کی بچت کرکے لاگت کو 70 فیصد تک کم کرتے ہوئے کسان کی آمدنی بڑھائی جاسکے گی۔زرعی یونیورسٹی کے نیو سینٹ ہال میں دفتر تحقیقات‘ اختراع و کمرشلائزیشن کے زیراہتمام منعقدہ خصوصی لیکچر میں ترقی پسند اورتجربہ کار کاشتکارآصف شریف نے کہا کہ 1958ء کے بعد کیمیکل پر مشتمل سبز انقلاب میں ہم نے زمین کی ذرخیزی اور ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ پیراڈوکسیکل ایگریکلچر کے ذریعے نہ صرف حیاتیاتی تنوع اور زمین کی ذرخیزی کو برقرار رکھا جا سکے گا بلکہ کھیلیوں پر آرگینک ملچ (ادھ سڑی گھاس) کے ذریعے فصلوں کی کاشت کے فروغ سے فی ایکڑ پیداوار کو بڑھاتے ہوئے لاگت کو70فیصد تک کم کرکے کسان کی معاشی حالت میں بہتری کی راہ ہموار ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دہائیوں کے زرعی تجربات کے بعد کھیلیوں پر آلو‘ چاول‘ گاجر‘ گندم‘ کپاس‘ مکئی‘ گنا اور گندم کی بھرپور پیداوار اس طرح ممکن بنائی کہ اس کیلئے نہ تو آبپاشی کی خاطر خواہ ضرورت محسوس کی اور نہ ہی فرٹیلائزریا پیسٹی سائیڈز کا استعمال کیا لہٰذا کم لاگت کے ساتھ زیادہ اور بہترکوالٹی کی پیداوار یقینی بناکرایک روشن مثال پیش کی ہے جسے دوسرے کاشتکاروں تک پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج مہنگے فرٹیلائزر‘ پیسٹی سائیڈز اور آبپاشی کیلئے بھاری سرمائے کی ضرورت ہے تاہم اگرکھیت کی بہترطور پر تیاری کرکے کھیلیوں پر آرگینک ملچ کے ذریعے کاشت یقینی بنالی جائے تو نہ صرف جڑی بوٹیوں سے نجات ملے گی بلکہ پیداواری اخراجات میں کمی سے کسان کے خالص منافع میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک ایکڑ سے خوشحالی کا ایسا پروگرام متعارف کروایا ہے جس کے ذریعے محض ایک چوتھائی پیداواری اخراجات سے 100فیصد منافع حاصل کیا جا سکے گا جبکہ بعض صورتوں میں ایک ایکڑ سے صرف تین ماہ کی فصل سے 4سے 5لاکھ روپے بھی کمائے جا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بدقسمتی سے ہم نے نہ تو کسان کی تربیت کا فریضہ ادا کیا ہے اور نہ ہی اسے بہتر پیداوار کے حوالے سے غیرجانبدارانہ تجویزدی ہے کیونکہ اس کی تربیت اور کونسلنگ کا کام سیڈ‘ فرٹیلائزر اور پیسٹی سائیڈ سپلائرز اپنے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز)نے چین کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بائیوہیلتھی ایگریکلچرکے فلسفے کو فروغ دیا جا رہا ہے جس میں محض 6کنال اراضی میں دو ٹنلز اور ورمی کمپوسٹ کے ذریعے چینی کاشتکارخوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پیراڈوکسیکل زراعت فطرت کے اصولوں کے عین مطابق اور کم لاگت میں زیادہ منافع کی حامل کاشتکاری ہے جس کیلئے حکومت پنجاب کے توسیعی ونگ کو خصوصی طور پر سامنے آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا بھر کے ماہرین حیاتیاتی تنوع اور ماحولیاتی نظام سے ہم آہنگ زرعی سرگرمیوں کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ آصف شریف کی ٹیکنالوجی بہت اہم اور وقت کی ضرورت ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) کے پروفیسرڈاکٹر محمود احمد نے کہا کہ انہوں نے کیمیکل اور پیراڈوکسیکل ایگریکلچرکا معاشی لحاظ سے تقابلی جائزہ شماریاتی اعدادوشمار کی بنیاد پر پیش کیا ہے جس کے مطابق ایک جیسی پیداوار کے ساتھ کیمیکل زراعت میں منافع 20روپے جبکہ پیراڈوکسیکل کاشتکاری میں منافع کی شرح 70فیصد سے بھی زائد ہے۔سیمینار سے ڈائریکٹرجنرل توسیع زراعت ڈاکٹر انجم علی بٹر‘ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ پنجاب ڈاکٹر عابد محمود‘ ڈائریکٹر اورک ڈاکٹر ظہیر احمد ظہیر اور ڈاکٹر عبدالرشید ملک نے بھی خطاب کیا۔