جس کیلئے زرعی یونیورسٹی فیصل آبا د کے ماہرین آسٹریلین سینٹر فار انٹرنیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کے ساتھ دالوں کی ویلیو چین مینجمنٹ پر مشترکہ منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اس حوالے سے ACIARکے نمائندہ وفد نے یونیورسٹی آف کوئنزلینڈآسٹریلیا کے ڈاکٹر جتندرا ایکاری کی سربراہی میں یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی۔ آسٹریلین سینٹر میں ایگریکلچرلنکج پروگرام کے پروگرام آفیسرڈاکٹر منور رضا کاظمی‘ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ سائنسز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مشتاق‘ دالوں کی ویلیو چین پر مشتمل نیشنل پروگرام کوارڈی نیٹر ڈاکٹر مبشر مہدی اور ڈاکٹر برہان کے ہمراہ آسٹریلیوی پروفیسر سے بات چیت کرتے ہوئے یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف نے کہاکہ پاکستان میں دالوں کی کاشت سے وابستہ کاشتکار معاشی طو رپر پسماندگی کا شکار ہیں لہٰذا ضروری ہوگا کہ اگر انہیں دالوں کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ کیلئے تیار کیا جائے تو ان سے خاطر خواہ پیداوار کی خریداری بھی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی لیکچرار کی حیثیت سے دالوں پر قومی تحقیقاتی پراجیکٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے اور ان کے پہلے پی ایچ ڈی طالب علم نے بھی مسور پر اپنی تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ چنے کی فصل چونکہ بارانی علاقوں میں کی جاتی ہے لہٰذا اس کے زیرکاشت رقبہ میں اضافہ کیلئے ضروری ہے کہ کاشتکار کو بہتر پیداوار کی حامل ورائٹی کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کی حاصل کردہ پیداوارکی بہتر قیمت پر خریداری بھی یقینی بنائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ کے نتائج کی روشنی میں حکومت کیلئے پالیسی گائیڈلائنز بھی مرتب کی جائیں تاکہ ان کی روشنی میں حکومتی دالوں کی کاشت میں اضافہ کیلئے حکمت عملی مرتب کر سکے جس سے یقینی طور پر ملک کیلئے 110ارب سے زائد کا کثیرمبادلہ بچانے کی راہ ہموار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے 2007ء میں پاکستان سے دالوں کی برآمد پر لگایا جانیوالے 35فیصد ایکسپورٹ ٹیکس نے اس سے وابستہ کاشتکاروں کو بددل کر دیا جس کی وجہ سے اس کی پیداوار بتدریج کمی کا شکار ہے لہٰذا مقامی ضرورت کوپورا کرنے کیلئے ہرسال 200ملین ڈالر کی دالیں درآمد کی جا رہی ہیں جو کسی طو رپر ملکی مفاد میں نہیں۔آسٹریلوی پروفیسر ڈاکٹر جتندرا ایکاری نے کہا کہ ماہرین دالوں کو گوشت کے مقابلہ میں زیادہ پروٹین کی حامل غذاء قرار دیتے ہیں اور ان کے ادارہ کی طرف سے پاکستان میں دالوں کی ویلیو چین مینجمنٹ پر شروع کیا جانیوالا پراجیکٹ مقامی سطح پر دالوں کی کاشت کو رواج دینے کیلئے زادراہ فراہم کرے گا۔ ڈاکٹر منور کاظمی نے بتایا کہ زرعی یونیورسٹی کا گریجوایٹ ہوتے ہوئے وہ یہ بات انتہائی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ہر شعبہ میں نابغہ روزگار شخصیات موجود ہیں جنہیں ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور کردار کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر انتہائی احترام سے دیکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے سائنسی ٹولز کی بدولت اب فصلوں کی ورائٹی ڈویلپمنٹ کا کام کئی سالوں سے مہینوں تک محدود ہوگیا ہے اور وہ آسٹریلیا میں کام کرنیوالے ایک ایسے سائنس دان سے رابطے میں ہیں جس نے محض ایک سال میں کراپ کی 7جنریشنز پر کامیابی کے ساتھ اپنا کام مکمل کیا تھالہٰذا وہ چاہیں گے کہ اسے جلد پاکستان کے دورہ کیلئے یہاں لایاجائے۔ انہوں نے کہاکہ بزنس مینجمنٹ سائنسز میں ان کے ٹیم ممبرز انتہائی باصلاحیت اور پیشہ وارانہ اُمور کی مہارت رکھتے ہیں۔ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ سائنسز ڈاکٹرخالد مشتاق نے کہا کہ پاکستان میں گندم‘ کپاس‘ گنا‘مکئی و چاول کے بعد دالیں بھی پولٹیکل اکانمی کے طو رپر دیکھی جاتی ہیں لہٰذا اگر ان کی مقامی پیداوار میں اضافہ کیلئے راستہ ہموار کیا جائے تو یقینی طو رپر مقامی کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔