کہ بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے دودھ‘ گوشت اور انڈوں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے فی جانور پیداوار میں اضافہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ ان کی نشوونما‘ ماحول اور دیکھ بھال کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے۔زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی کلیہ اُمور حیوانات اور اورک کے اشتراک سے منعقدہ بین الاقوامی سیمینار کے مقررین جن میں یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف‘ زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر مسرور الٰہی بابر‘ ساہیوال کیٹل ایسوسی ایشن کے روح رواں سردار آفتاب خان وٹو‘ بریگیڈیئر (ر) حامد خلیل‘ چینی ماہر ڈاکٹر یاچنگ وانگ‘ ڈین کلیہ اُمور حیوانات ڈاکٹر اسلم مرزا‘ انجینئر سمیع اللہ‘ حافظ ڈاکٹر عبداللہ‘ ڈاکٹر جاوید اقبال‘ عمران بشارت‘ڈاکٹر مسعود‘ ڈاکٹر اقبال مصطفی‘ ڈاکٹر علیم بھٹی اور ڈاکٹر سیف الرحمن نے کہا کہ ملک کی زرعی شرح نمو میں لائیوسٹاک سیکٹر پچاس فیصد سے زائدکا حصہ دار ہے لہٰذا اس کی ترقی ملک کی مجموعی ترقی کو آگے بڑھانے کاراستہ ہموار کرے گی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز) نے کہا کہ سیمینار میں لائیوسٹاک سیکٹر کے ترقی پسند کاشتکار شامل ہیں لہٰذاوہ چاہیں گے کہ ان کی کامیابیوں اور تجربات سے جانکاری کیلئے سیمینار کی کارروائی کوشائع کرکے نچلی سطح کے کسانوں تک پہنچایا جائے تبھی سیمینار کے حقیقی مقاصد پورے ہو سکیں گے۔انہوں نے کہاکہ وہ یونیورسٹی میں ایگرانومی اور لائیوسٹاک کے ماڈل فارمز قائم کررہے ہیں تاکہ یونیورسٹی طلبہ کے ساتھ ساتھ یہاں آنیوالوں کیلئے کچھ نیا سیکھنے کے مواقع پیدا کئے جا سکیں۔ انہوں نے تمام کلیہ جات کے ڈینز اور چیئرمینوں پر زور دیا کہ مستقبل کیلئے اپنے اہداف مقرر کرکے ترقی کے روڈ میپ کا تعین کریں تاکہ وہ اپنے شعبہ کی بہتری کیلئے اپنا تعمیری کردار ادا کرنے کیلئے متحرک رہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں روایتی مویشی پالنے ولوں کے مقابلہ میں ایسے کسان بھی موجود ہیں جو جانوروں کی بہتردیکھ بھال‘ بہتر مینجمنٹ اور نیوٹریشن ضروریات پوری کرتے ہوئے فی جانورخاطر خواہ زیادہ دودھ لیتے ہیں لہٰذا ان سے سیکھنے کے مواقعوں سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہرچندبڑے کسان پیداوارمیں اضافہ کیلئے وسائل استعمال کرتے ہیں تاہم ان کی کوشش ہوگی کہ چھوٹے کسانوں کی معاشی ترقی کیلئے انکا ہاتھ تھاما جائے جس کیلئے یونیورسٹی میں چھوٹے زرعی آلات کی ریورس انجینئرنگ کا عمل شروع کر دیا گیا ہے جس کے ذریعے انہیں سستے‘ معیاری اور چھوٹے رقبوں کیلئے موثر آلات میسر ہونگے۔ڈین کلیہ اُمور حیوانات نے کہا کہ زرعی جی ڈی پی سے اگر لائیوسٹاک سیکٹر علیحدہ کر دیا جائے تو ایگریکلچرگروتھ کی حیثیت ثانوی رہ جائے گی۔ انہوں نے کلیہ میں پولٹری اور ڈیری سائنس کے دو نئے ڈگری پروگرام شروع کرنے پر وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر محمد اشرف کا شکریہ ادا کیا۔ بریگیڈیئر حامد خلیل نے کہاکہ انہوں نے روایت سے ہٹ کر ملک میں درآمدی جانوروں کے ساتھ ڈیری فارمنگ کا آغاز کیا جو آج ایک کامیاب ماڈل کے طور پر موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہرچند ترقی یافتہ ممالک میں 11ہزار لٹرسالانہ دودھ دینے والا جانور یہاں آکر 7سے8ہزار لیٹر دودھ دیتا ہے تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ بہترمینجمنٹ سے اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ زرعی یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر مسرور الٰہی بابرنے بتایا کہ انہوں نے مالیکولرجنیٹکس کے ذریعے مقامی بھیڑکی نئی نسل تیارکی ہے جو سال 2021ء میں سامنے آجائے گی جس سے جانوروں کی جینیاتی بڑھوتری کا راستہ ہموار ہوجائیگا۔ ان کا کہنا تھا کہ محدودوسائل کے باوجود انہوں نے کوشش کی ہے کہ ملکی سطح پر تحقیق اور سائنس میں اپنا حصہ ڈالا جائے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے بریگیڈیئر حامدخلیل کی درآمدی جانوروں کے ڈیری فارم کو ملک میں پہلا کامیاب ماڈل قرار دیتے ہوئے اہم پیش رفت سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جامعات اپنے نوجوان طلبہ پر مشتمل افرادی قوت کو لائیوسٹاک ایکسٹینشن کیلئے میدان عمل کا حصہ بنائیں تو اس سے نمایاں بہتری وقوع پذیرہوسکتی ہے۔ ساہیوال کیٹل ایسوسی ایشن کے سیکرٹری عمران بشارت نے کہا کہ ساہیوال نسل کی گائے موسمیاتی تبدیلیوں اور شدید موسمی حالات میں تسلسل سے اپنی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنے والا مقامی جانور ہے جس میں دودھ دینے کی صلاحیت بڑھانے کیلئے سائنسی اداروں کو مربوط کاوشیں بروئے کار لانا ہونگی۔ انہوں نے کہا کہ کسان کو دودھ کی مناسب قیمت نہیں ملتی لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہلہ دودھ کی طرز پرنیا بزنس ماڈل متعارف کروایا جائے جس سے دودھ کی مناسب قیمت کسان کو مل سکے۔ ڈاکٹر مسعود نے کہا کہ ماضی میں ہمارے پاس مالیکولرجنیٹکس کے ماہرنہیں تھے لیکن آج ڈاکٹر مسرور الٰہی بابر کی محنت سے درجنوں ماہردستیاب ہیں جس سے آج جانوروں میں جینیاتی ردوبدل کے ذریعے ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کا کام نسبتاً آسان ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ دنیا میں 20کروڑ بھینسوں میں 90فیصد حصہ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش و چینی بھینسوں کا ہے اور بھینس کو ملک میں ڈیری کا اہم جانور قرار دیا جاتا ہے۔