اور وائس چانسلر پروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں (ستارہئ امتیاز) سے ان کے چیمبر میں ملاقات کے ساتھ ساتھ سنڈیکیٹ روم میں ڈینز و ڈائریکٹرز سے بھی ملاقات کی۔
آسٹریلین ہائی کمشنر نے آسٹریلین سینٹر فار انٹرنیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کے کنٹری مینیجر منور کاظمی‘ پولٹیکل سیکرٹریز مس ایشلے لائٹ‘ مس لاؤرن واہ اور پروگرام آفیسر (پولٹیکل و اکنامکس) کے ہمراہ آسٹریلین جامعات سے فارغ التحصیل سکالرز سے بھی ملاقات کی۔
اس دوران یونیورسٹی میں آسٹریلین فنڈنگ سے جاری تحقیقاتی پروگرامز میں پیش رفت کا جائزہ بھی لیا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مذکورہ تحقیقاتی منصوبوں کے نتیجہ میں سامنے آنیوالی ٹیکنالوجی کی کمرشلائزیشن کی راہ ہموار کی جائے۔ آسٹریلین ہائی کمشنر ڈاکٹر جیفری شاہ نے زرعی ٹیکنالوجی کی کمرشلائزیشن کوکاشتکار کی بھرپور معاونت سے تعبیر کرتے ہوئے
کہا کہ ان کا ملک اس حوالے سے سروس پروائیڈرز کی تربیت کیلئے بھی معاونت کیلئے پرعزم ہے جس سے ایک طرف پڑھے لکھے پاکستانی نوجوانوں کو باعزت روزگار مہیا ہوگا تو دوسری جانب کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ملے گا۔ انہوں نے زرعی شعبہ میں موجود چیلنجز سے کامیابی سے نبردآزما ہونے کیلئے پاکستان اور آسٹریلین سائنس دانوں کے قریبی روابط اور مشترکہ تحقیقی کاوشوں کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقراراحمد خاں (ستارہئ امتیاز) نے بتایا کہ اب تک آسٹریلین اداروں کی معاونت سے یونیورسٹی میں 16تحقیقاتی منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جبکہ ایک درجن کے لگ بھگ منصوبوں پر کام جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے ماہرین یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سمیت آسٹریلین سینٹر فار انٹرنیشنل ایگریکلچرل ریسرچ کے ساتھ مشترکہ تحقیقاتی منصوبوں میں مصروف عمل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی قیادت میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان اس امر پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے کہ کس طرح ملک میں اکیڈمک تھنک ٹینکس کی مختلف پالیسی ایشوز پر آزادانہ رائے سامنے لانے کیلئے حوصلہ افزائی کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی ماہرین نے ایف اے او کی معاونت سے صوبہ پنجاب میں 13ایگروایکولاجیکل زونز کی نشاندہی کی ہے جس کے مطابق ایگریکلچرل زوننگ میں پیش رفت کرکے غیرمعمولی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زرعی پالیسی میں مزید نکھار پیداکرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور وہ چاہیں گے کہ اس کا دائرہ محض پانچ فصلات تک محدود رکھنے کے بجائے اس میں مزید فصلات کو بھی شامل کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں دالوں کا استعمال نسبتاً کم ہواہے لہٰذا وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی زمینوں میں بڑی فصلات کے سائیکل میں دالو ں کی کاشت کو بھی رواج دیا جائے جس سے زمین کی ذرخیزی اور استعمال میں نمایاں بہتری ہوگی۔انہوں نے بتایا کہ ہندوستانی پنجاب میں دودھ سے پنیر بنانے کوایک انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے جبکہ پاکستانی پنجاب میں اگر اس شعبہ کوکاٹیج انڈسٹری کے طو رپر متعارف کروایا جائے تو روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔اس موقع پر اے سی آئی اے آر کے کنٹری مینیجر مسٹر منور کاظمی نے کہا کہ پاکستان میں آسٹریلین کمپنیوں کی تیار کردہ سستی اور موثر کلائمیٹ سمارٹ ایگریکلچرل ٹیکنالوجی کوعام کرنے کی انتہائی زیادہ ضرورت ہے اور وہ چاہیں گے کہ اس سلسلہ میں نوجوان سروس پروائیڈرز اس ٹیکنالوجی کو عام کاشتکار کے کھیت تک لیجائیں جس سے ایگری بزنس و ایگری ٹورازم یقینی طو رپر فروغ پائیں گے۔انہوں نے بتایا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں شروع کئے جانیوالے تحقیقاتی منصوبوں کو دوسرے اداروں میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے پروفیسرڈاکٹر صدیق قدمبوٹ نے کہا کہ وہ سال 2008ء سے قبل زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے واقف نہیں تھے تاہم اب وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں ایک دہائی سے زائد عرصہ سے جاری تحقیقاتی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر کی جامعات اس کے ساتھ پیشہ وارانہ تعلقات کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی آرزومند ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں دالوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی زمینوں کی ذرخیزی کو برقرار رکھنے کیلئے دالوں کی کاشت کو باقاعدہ کراپنگ سائیکل کا حصہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایگری بزنس و ایگری ٹورازم کے فروغ کیلئے پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے اپنی جامعہ میں خوش آمدید کہیں گے۔آسٹریلین وفد نے یونیورسٹی میں جاری تحقیقاتی منصوبوں کی عملی پیش رفت کا جائزہ بھی لیا۔