اس لیے جن ممالک نے برق رفتار اقتصادی ترقی کی ہے ان کی کامیابیوں کے پیچھے شماریات کی کرشمہ سازیاں پنہاں ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ ریاضیات و شماریات کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس برائے شماریاتی سائنسز کا اطلاق کے افتتاحی سیشن سے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔انہوں نے کہا کہ اعداد وشمار کا حصول،منصوبہ بندی،تجزیہ کاری اور ان سے نتائج اخذ کیے بغیر سائنسی تحقیق مکمل نہیں ہو سکتی اس لیے دنیا بھر میں جامعات اور دیگر تحقیقی اداروں میں شماریات کے شعبہ کو کلیدی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکوں کی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کیلئے شماریات کو بروئے کار لاکر سروے کرائے جا تے ہیں جس سے مستقبل کی پیش بندی اور طویل المدتی منصوبہ جات تیار کیے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا ویژن 2030بھی انہیں شماریاتی تجزیوں کے بعد تیار کیا گیا تھاجسے زرعی شعبہ جات کی جانب سے بھرپور پذیرائی میسر آئی۔پروریکٹر نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامس ڈاکٹر محمد حنیف میاں نے کہا کہ تمام تراطلاقی و سماجی سائنسز کے علوم میں شماریات کا کردار انتہائی اہم ہے اس کے ذریعے اخذ کردہ نتائج نا مکمل شواہد ہونے کے باوجود بھی قابل قبول انداز میں ترتیب دیے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شماریات کے بغیر دنیا بھر میں مختلف ممالک کے سالانہ مالیاتی بجٹ اور منصوبہ بندی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ منطقی شماریات میں حاصل کئے گئے اعداد وشمار کا استعمال کرتے ہوئے مختلف نمونوں کی جانچ کاری کی جاتی ہے۔ڈین فیکلٹی آف سائنسز ڈاکٹر محمد اصغر باجوہ نے کہا کہ شماریات کی مانگ اور استعمال سائنسی تحقیقاتی شعبوں بالخصوص اکنامکس،میڈیسن، ایڈورٹائزنگ،ڈیموگرافی اور سائکالوجی جیسے شعبہ جات میں کثرت سے ہوتا ہے اور اس کی مانگ کاروبار،صنعت،تحقیقی شعبوں،تجربہ گاہوں سمیت دیگر اداروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اعدادو شمار کے ذریعے ہی فی کس آمدنی، بیروزگاری اور آبادی میں اضافے کی شرح و دیگر تمدنی سہولتوں کی موجودگی کاتعین یقینی بنایا جاتا ہے۔یونیورسٹی کے شعبہ شماریات و ریاضی کے سربراہ ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہا کہ قومی ترقی کے اہداف کے ساتھ ساتھ کثیر المقاصد منصوبے تیار کرنے کیلئے مالیات اور معاشیات کے ماہرین شماریاتی علوم کو استعمال میں لاتے ہیں۔کانفرنس میں ملک بھر کے مختلف اداروں سے آئے ہوئے ماہرین شماریات نے بھر پور شرکت کی۔