جن پر قابو پانے کے لئے سائنسدانوں کو پوسٹ ہارویسٹ ٹیکنالوجی متعارف کروانا ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹیکلچر ل سائنسز کے زیر اہتمام ہارٹیکلچرل مینجمنٹ ورکشاپ کے افتتاحی سیشن سے بطور مہمان خصوصی اپنے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ابھی تک پھلوں اور سبزیوں کی ہارویسٹنگکے لئے روایتی اور فرسودہ طریقہ جات اپنائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے زمین پر چوٹ لگنے اور درختوں اور پودوں سے مناسب انداز سے نہ توڑنے کی وجہ سے بڑی مقدار میں پیداوار ضائع کر بیٹھتے ہیں جس سے کسان کے ساتھ ساتھ ملکی اقتصادیات کو بھاری نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ کسانوں کیلئے سستی اور قابل عمل جدید زرعی ٹیکنالوجی کی تیاری کے بغیر انہیں نئی جدتوں سے آراستہ نہیں کیا جا سکتا۔ ڈائریکٹر جنرل ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد محمد نواز خان نے کہا کہ ان کا ادارہ پوسٹ ہارویسٹ نقصانات کو کم سے کم شرح تک لانے کے لئے عملی اقدامات برائے کار لا رہا ہے جسے یونیورسٹی اور زرعی توسیعی شعبے کی مدد سے عام کسان کی دہلیز تک منتقل کرنے پر توجہ دی جائیگی۔ڈین کلیہء زراعت، ڈاکٹر امان اللہ ملک نے کہا کہ یونیورسٹی کی پوسٹ ہارویسٹ لیب ملک بھر کے کسانوں اور تحقیقی اداروں کی افرادی قوت کو جدید ٹیکنالوجیز کی تربیت کے لئے مسلسل مصرو ف عمل ہے تاکہ اس مسئلے پر جلد سے جلد قابو پایا جا سکے۔ ڈاکٹر راحیل انور نے کہا کہ مناسب طریقے سے ہارویسٹ نہ کرنے سے پھلوں اور سبزیوں کی کوالٹی میں کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی برآمدات متاثر ہوتی ہے۔