لہٰذا ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی نیوٹریشن ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ فشریز کو باقاعدہ انڈسٹری کے طو رپر ترقی دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لئے باعزت روزگار کے مواقعوں سے فائدہ اُٹھایاجانا چاہئے۔ یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے شعبہ ماہی پروری کے زیراہتمام ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی کے مقابلے میں کمرشل بنیادوں پر مچھلیوں کی افزائش میں اضافہ ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایکواکلچرکی ترقی کو حکومتی ترجیحات کا حصہ بنایا جائے تو اس سے بے روزگاری کی شرح میں کمی لانے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ یونیورسٹی میںزراعت و لائیوسٹاک اور فش فارمنگ کا ایک ایسا ماڈل قائم کرنا چاہتے ہیں جس سے لوگوں کو سیکھنے اور اپنی فارمنگ میں بہتری پیدا کرنے کا ولولہ پیداہوسکے یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی میں یو روڈ سے وابستہ رقبوں میں مختلف حوالوں سے ماڈل فارمنگ کورواج دیا جا رہا ہے تاکہ نئے آنیوالوں ان سے سیکھنے کا موقع مل سکے۔ ڈین کلیہ سائنسز ڈاکٹر اصغر باجوہ نے کہا کہ ماہی پروری میں سستی اور نیوٹریشن سے بھرپور غذاءکے ساتھ ساتھ بہترین قوت مدافعت کی حامل مچھلیوں کی تیزرفتار تیاری ‘ پاﺅنڈ مینجمنٹ اور مچھلی کی مارکیٹنگ اہم چیلنجز ہیں جن سے نبردآزماہونے کیلئے ماہرین کو ماہی پروری میں شامل افراد کی مدد کیلئے آنے آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ماہی پروری کو سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا جا رہا ہے لہٰذا ہمیں بھی روایتی ماہی پروری کے بجائے اپنے معاملات کو آٹومےٹڈ سسٹم پر لانا ہوگا۔
ڈاکٹر حماد احمد خاں نے کہا کہ دنیا میں سالانہ 171ملین ٹن مچھلی پیدا کی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں مقامی طو رپر اس کی پیداوار میں حائل رکاوٹوں کی وجہ سے مسائل درپیش ہیںجس کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر اور ماہرین کو مل کر ان کا حل نکالنا ہوگا۔ سیمینار سے شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹر احمد متین نے بھی خطاب کیا۔