پیسٹی سائیڈزکے مضراثرات کا سائنسی و شماریاتی تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ ریسرچ و ڈویلپمنٹ کیلئے خصوصی فنڈنگ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ٹڈی دَل ریسرچ و ڈویلپمنٹ سیل کے زیراہتمام منعقدہ خصوصی ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے کلیدی مقررین آسٹریلیا کے ڈاکٹر ڈیوڈ ایم ہنٹر‘ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے سینئر لوکسٹ فورکاسٹنگ آفیسرڈاکٹر کیتھ کریسمین‘ چائنہ ایگریکلچریونیورسٹی کے ڈاکٹر زانگ لانگ‘زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف (ہلال امتیاز)‘ چیئرمین پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل ڈاکٹر محمد عظیم خان‘ ڈائریکٹر جنرل پلانٹ پروٹیکشن کراچی ڈاکٹر فلک شیر‘ ایف اے او کے نیشنل کوارڈی نیٹر ڈاکٹر مبارک احمد‘ ڈائریکٹر جنرل ایکسٹینشن پنجاب ڈاکٹر انجم علی بٹر‘ چیئرمین شعبہ حشریات ڈاکٹرسہیل احمد‘ ڈاکٹر وسیم اکرم‘ ڈاکٹر عامر رسول‘ ڈاکٹر محمد صغیر اور ڈاکٹر شاہد مجیدنے ٹڈی دَل کے حیاتیاتی کنٹرول کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں مکڑی کے حملے سے پہلے ہی صورتحال کا ادارک کرتے ہوئے انسدادی حکمت عملی ترتیب دینی چاہئے تاکہ اسکا ملکی حدود میں داخل ہوتے ہی موثر انسداد یقینی بنایا جا سکے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر محمد اشرف نے بتایا کہ یونیورسٹی میں قائم کئے گئے ملک کے پہلے ٹڈی دَل ریسرچ و ڈویلپمنٹ سنٹر میں ماہرین موزوں کیمیکل سپرے کی مناسب شرح تجویز کرنے کے ساتھ ساتھ مکڑی کے حیاتیاتی کنٹرول کی راہ ہموار کرنے کیلئے قدرتی طریقہ ہائے انسداد کے مختلف پہلوؤں سے جائزہ لے رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی انجینئرز نے تھری اِن ون سپرے مشین بنانے کے ساتھ ساتھ اسے کھیت سے دور رکھنے کیلئے سولرائزڈ گھنٹی بھی متعارف کروائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے 25انٹرنیز تھرپار اور چولستان میں انسداد ٹڈی دَل کے لئے میدان عمل میں پاک آرمی اور حکومتی اداروں کے ساتھ شامل حال ہیں۔ آسٹریلین ماہر ڈاکٹر ڈیوڈہنٹر نے کہا کہ آسٹریلیا میں کسی بھی کیمیکل سپرے سے پہلے اس کے جملہ اثرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے لہٰذا وہ چاہیں گے کہ دوسرے ممالک میں بھی یہ عمل دہرایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹڈی دَل کے حملے کی صورت میں مقامی لوگ اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے فوراً حکومتی اداروں کو مطلع کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کیمیکل سپرے کرنیوالی ٹیموں کو باقاعدہ تربیت فراہم کرکے میدان میں اُتارا جائے اور ان کی صحت اور حفاظت کو مقدم رکھنے کے ساتھ ساتھ سپرے میں شامل مشینری کی کارکردگی کو یقینی بنانے کیلئے بھی ٹیکنشنز ٹیم کا حصہ بنائے جائیں۔ سینئر لوکسٹ فورکاسٹنگ آفیسرڈاکٹر کیتھ کرسمین نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھی ٹڈی دَل کی غیرمتوقع آمد اور طویل قیام کی وجہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان میں ٹڈی دَل کی آمد سے پہلے ہی تمام اداروں کو الرٹ جاری ہوجائے تو بہتر حکمت عملی سے اس کا تدارک ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ٹڈی دَل بلوچستان کے شہر لسبیلہ میں آئند ہ سال فروری تک موجود رہے گی لہٰذا ہمیں علاقے کی مکمل مانیٹرنگ اور سرویلنس کو یقینی بنانا ہوگاتاکہ بالغ مکڑی کو مارنے کے ساتھ ساتھ اس کے انڈوں کو بھی مکمل طور پر تلف کر دیا جائے۔ ایف اے او کے نیشنل کوارڈی نیٹر ڈاکٹر مبارک احمدنے کہا کہ رواں سال ٹڈی دل کامتوقع حملہ اگر اسی شدت کے ساتھ ہوتا تو اس سے جی ڈی پی کا 1.2فیصد نقصان اُٹھانا پڑتا تاہم پاکستان آرمی کے جوانوں اور حکومتی اداروں کے ذمہ داران کی بروقت کارروائی سے نقصان کی شرح پر قابو پانے میں مدد ملی۔ انہوں نے کہا کہ اس سے متاثرہ 21اضلاع میں سے 13اس کے شدید حملے سے متاثر ہوئے جبکہ 8اضلاع میں اس نے جزوی نقصان پہنچایا۔ڈائریکٹر جنرل توسیع زراعت پنجا ب ڈاکٹر انجم علی بٹر نے کہا کہ حکومتی اور بین الاقوامی فنڈنگ اداروں کی معاونت سے حکومتی ادارے اس پوزیشن میں ہیں کہ مستقبل میں ٹڈی دل کا موثر تدارک کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی‘ صوبائی اوربین الاضلاعی بارڈرایریاز پر اس کے تدارک کی حکمت عملی ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ مستقبل میں متوقع حملے سے متاثر ہونے والے اضلاع میں یونین کونسل کی سطح پر لوگوں کو متحرک کر دیاگیا ہے۔ ڈی جی پلانٹ پروٹیکشن کراچی ڈاکٹر فلک ناز نے کہا کہ حکومت فور ی طو رپر 100انٹومالوجسٹس‘ 50اسسٹنٹ انٹومالوجسٹس اور 50ڈرائیور بھرتی کر رہی ہے جبکہ یونیورسٹی کے 50انٹرنیز کو بھی فیلڈ سرگرمیوں کا حصہ بنایا جا رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ڈیپارٹمنٹ کو حکومت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی فنڈنگ ایجنسیوں کی مدد بھی حاصل ہے اور توقع پرعزم ہیں کہ مستقبل میں ٹڈی کے کسی بھی حملے کا موثر طور پر تدارک کیا جائے گا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت فوری طو رپر 6نئے ایئر کرافٹ خریدنے کے ساتھ ساتھ ضرورت پڑنے پر رینٹ کی بنیادپر بھی ایئرکرافٹ فیلڈ میں اُتارسکے گی۔ اکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر محمد عظیم خان نے اس بحرانی صورتحال میں ثابت ہوگیا ہے کہ ہم پاکستانی ایمرجنسی صورتحال میں بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کیلئے ریسرچ و ڈویلپمنٹ کا سلسلہ بدستور جاری رکھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ اچھی ریسرچ تجاویز کے ساتھ ٹڈی دل ریسرچ کیلئے وسائل فراہم کر سکتا ہے۔