تاکہ یونیورسٹی کے کردار کو چار دیواری سے نکال کر سوسائٹی کی جملہ ضروریات سے ہم آہنگ کرکے اسے ایک متحرک اور موثر ادارہ بنایا جا سکے۔ یہ باتیں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے شعبہ ایگرانومی کی کلائمٹالوجی لیبارٹری اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کے اشتراک سے پائیدار معاشی و ماحولیاتی حوالے سے زمین میں فصلاتی باقیات کی بہتر مینجمنٹ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے سیمینار کے منتظمین خصوصاً ڈاکٹر اشفاق احمد چٹھہ پر زور دیا کہ کمیونٹی میں اپنے وجود کا خوشگوار احساس دلانے کیلئے نوجوان ماہرین کو میدان عمل کا حصہ بنائیں اور ماحولیاتی اور موسمیاتی معلومات اور مستقبل کے ممکنہ حالات سے شہریوں کو آگاہ رکھتے ہوئے معاملات میں بہتری کیلئے عملی کاوشیں بروئے کا رلائیں تاکہ پاکستانی عوام کو سائنس دانوں کی محنت اور وجود کا احساس ہوسکے۔ انہوں نے منتظمین کو ہدایت کی کہ شہراور یونیورسٹی کے عمومی درجہ حرارت اور ماحولیاتی اعدادو شمار کا سائنسی تجزیہ کرتے ہوئے یونیورسٹی کی حد تک بہتری کیلئے ضروری اقدامات کریں اور مستقبل میں اس کے اثرات سے کیمپس کمیونٹی کو ضرور آگاہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی کے سربراہ کے طور پر وہ پہلی بار یونیورسٹی آنیوالوں کے اذہان و قلوب میں ایک مثالی زرعی دانش گاہ کا تشخص اجاگر کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں سے انہیں بہت کچھ نیا دیکھنے اور سیکھنے کو ملے۔ سیمینار کے کلیدی مقرر پروفیسرڈاکٹر اشفاق احمد چٹھہ نے بتایا کہ ہرچند چین‘ امریکہ اور بھارت جیسے ممالک گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج میں حصہ دار ہیں اور پاکستان کیوٹوپروٹوکول ممبر ہوتے ہوئے گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج میں انتہائی معمولی حصہ ڈال رہا ہے تاہم ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات میں دنیا کے خطرناک ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں لائیوسٹاک ‘ صنعتیں اور کھڑے پانی میں چاول کی بجائی گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کی بڑی وجہ ہیں تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں 100ارب ڈالر مالیت کے گرین کلائمیٹ فنڈ سے کاربن کریڈٹ کے حصول کیلئے اپنی تجاویز و منصوبے بلاتاخیر جمع کروانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 44لاکھ ایکڑ رقبے پر چاول کاشت کیا جاتا ہے جس کی کھڑے پانی میں بجائی کے رجحان میں کمی لاتے ہوئے ڈائریکٹ بجائی کو رواج دے کر گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گرین ہاﺅس گیسز کے اخراج کے ذمہ دارترقی یافتہ ممالک کلین ڈویلپمنٹ میکانزیم کے تحت ترقی پذیر ممالک کو کلین ٹیکنالوجی اور کاربن کریڈٹ کے ضمن میں سرمایہ فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں لہٰذا حکومت کو اس فنڈ سے پاکستان میں لائیوسٹاک‘ صنعت اور کھڑے پانی میں چاول کی کاشت سے پیدا ہونیوالی گرین ہاﺅس گیسز میں کمی کیلئے منصوبے منظور کروانے چاہئیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے محمد مسعود نے کہا کہ ان کا ادارہ پانی‘ ماحولیات اور حیاتیات کے تحفظ کیلئے مختلف اداروں کے ساتھ ملک کر کام کر رہا ہے اور ایک لاکھ ستر ہزار کسانوں کے ساتھ قریبی تعاون کو فروغ دیتے ہوئے انہیں ماحول دوست زرعی ٹیکنالوجی سے واقفیت دلا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کھڑے پانی میں چاول کی کاشت کے مقابلے میں متبادل ٹیکنالوجی کوعام کاشتکار کی دہلیز تک پہنچانے اور عام کرنے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ فصلات کی باقیات کو جلانے کے بجائے زمین کا حصہ بنایاجا سکے۔ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ میں کلائمیٹ چینج ریسرچ سنٹر کی محترمہ سعدیہ سلطانہ نے بتایا کہ فصلات کی باقیات کو کھیت میں جلانے سے عالمی سطح پر گرین ہاﺅس گیسزکے اخراج میں 20فیصد اضافہ ہورہا ہے لہٰذا فصلات کی باقیات کو جلانے کے بجائے زمین میں جذب کرنے سے پیداوار میں اضافہ کو رواج دیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد نے کہا کہ ماحولیاتی خرابی کی موجودہ صورتحال برقرار رہی تو پچاس سال بعد درجہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا جس سے انسانی زندگی کوخطرناک حالات کا سامنا ہوگا۔ سیمینار سے ڈین کلیہ زرعی انجینئرنگ ڈاکٹر اللہ بخش اور ڈاکٹر جہانزیب امتیاز چیمہ نے بھی خطاب کیا۔