یونیورسٹی کی کلیہ فوڈ ‘نیوٹریشن و ہوم سائنسزکے زیراہتمام نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ سائنس و ٹیکنالوجی اور پاکستان سائنس فاﺅنڈیشن کے اشتراک سے سکول جانیوالے بچوں کی نیوٹریشن بہتر کرنے کے حوالے سے منعقدہ ایک روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈین کلیہ فوڈ نیوٹریشن و ہوم سائنسز ڈاکٹر مسعود صادق بٹ نے کہا کہ 45فیصد بچوں کی افزائش جمود کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ نہ تو اپنے پورے قد کو پہنچ پاتے ہیں اور نہ ہی اپنی جسمانی و ذہنی صلاحیت کے مطابق کام کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے 56فیصد پاکستانی بچے وٹامن اے‘41فیصد وٹامن ڈی‘ 36فیصد زنک جبکہ 34فیصد بچوں کو فولاد کی کمی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہ صحت مند بچوںکے مقابلے میں کم صلاحیت کے حامل ہوتے ہوئے معاشرے میں پیچھے رہ جاتے ہیں لہٰذا ضرورت ہے کہ ایسے بچوں کو فوری طور پر نیوٹریشن پروگرام کا حصہ بنایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں 50فیصد اموات مختلف انفیکشنزکی وجہ سے وقوع پذیر ہورہی ہیں لہٰذا بچوں کے پہلے پانچ سال ان کی بہتر نگہداشت کو یقینی بنانے کیلئے ہمیں معاشرتی اور خاندانی سطح پر ماﺅں کی بھی تربیت کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی حکومت معاشی شرح نمو کا 3فیصد یعنی توانائی سے بھی ایک فیصد زیادہ بجٹ بیماریوں سے بچاﺅ کیلئے خرچ کر رہی ہے جبکہ اگر کھانے کی عادات اور ترجیح میں معمولی تبدیلی یقینی بنالی جائے تو صحت کے بجٹ کا بڑا حصہ دوسری ضروریات پر خرچ کیا جا سکے گا۔ڈاکٹر فیض الحسن شاہ نے کہا کہ ہمیں مارکیٹ سے فاسٹ فوڈ کے بجائے گھریلو سطح پر تیار کی جانیوالی خوراک کے استعمال کو فروغ دینا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ 60فیصد خواتین اور بچوں کو وٹامن ڈی ‘ 45فیصد میں وٹامن اے کی کمی کا سامنا ہے جبکہ 49فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ڈاکٹ نزہت ہما نے کہا کہ سکول کی سطح پر ہمیں بچوں میں مناسب اور نیوٹریشن سے بھرپور خوراک کی آگاہی کیلئے مزید توانائیاں صرف کرنا ہونگی اور وہ سمجھتی ہیں کہ نچلی سطح پربچوں کی تربیت معاشرے میں خوشگوار تبدیلی کی بنیاد بنے گی۔ ڈاکٹر کامران شریف نے کہاکہ اچھی اور متوازن خوراک انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کیلئے انتہائی ضروری ہے لہٰذا خوراک کے معاملے میں ہمیں محتاط اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا ہوگاتاکہ خاندان کی سطح پر خوراک بہتر کرکے صحت کے بجٹ میں کمی لائی جا سکے۔