تاکہ ہر سال طلبائے قدیم کے سالانہ اجلاس باقاعدہ طو رپر منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ اس پلیٹ فارم کو یونیورسٹی کی نیک نامی میں اضافے اور اس میں زیرتعلیم مستحق اور ضرورت مند طلبہ کیلئے وسائل میسر کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکے۔انسٹی ٹیوٹ آف ایگری ایکسٹینشن و رورل ڈویلپمنٹ کے زیراہتمام ایگریکلچرٹیکنالوجی ٹرانسفر کیلئے مربوط ای لرننگ سسٹم پر منعقدہ تربیتی ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال رندھاوا نے کہا کہ ہم بہترکوالٹی کے بیج‘ بروقت زرعی مداخل کی فراہمی کے ذریعے پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن بنا سکتے ہیں اوراگر اس عمل میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بھی رواج دیا جائے تو زراعت کو محض گزراوقات کے بجائے ایک مکمل کاروبار کے طو رپر ترقی دینے میں حائل مشکلات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے وقت ساڑھے تین کروڑ آبادی والے ملک میں آج بائیس کروڑ انسان ماضی کے مقابلے میں کئی گنازیادہ پھل‘ سبزیاں‘ اناج اور گوشت استعمال کر رہے اور یہ سب اضافہ زرعی سائنس دانوں کی دن رات کی محنت کا ثمرہے۔ انہوں نے کہا کہ اربوں ڈالر کے خوردنی تیل اور سبزیوں کے بیجوں کی درآمدات میں کمی لانے کیلئے ایک طرف حکومت کو زرعی سائنس دانوں کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں مطلوبہ وسائل نہ صرف فراہم کرنے ہونگے بلکہ انکا آزادانہ استعمال بھی سائنس دانوں کی صوابدید پر چھوڑنا ہوگا تبھی اربوں ڈالر کی درآمدات سے چھٹکاراممکن ہوگا۔ ان سے قبل انسٹی ٹیوٹ آف ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد محمود چوہدری نے کہا کہ آج دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ زراعت میں ترقی اور پیداوار میں اضافہ کیلئے انفرمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھانا ہوگا۔ ورکشاپ سے ڈاکٹر شوکت علی‘ ڈاکٹرعابد غنی‘ ڈاکٹر عقیلہ صغیر و دیگر نے بھی خطاب کیا۔